Friday, February 11, 2022

وزیراعظم نیازی کو بھتیجے کی تقرری پر تنقید کا سامنا

 وزیراعظم آزادکشمیر سردار عبدالقیوم نیازی کے بھتیجے کی ان کے ہمراہ بطور پولیٹیکل سیکریڑی تقرری نے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف حکمران تحریک انصاف کے بیشتر کارکنوں کی جانب سے تنقیدی تبصروں کے سیلاب کو دعوت دی ہے جن کا الزام ہے کہ وہ، یعنی وزیراعظم ، حکومت کو "خاندان اور دوستوں کی کمپنی" کے طور پر چلا رہے ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے نیازی نے اپنے چھوٹے بھائی کے وکیل فرزند سردار مطیب کو اپنا پولیٹکل سیکریڑی مقرر کیا جو اپنے چچا کے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد سے ہی حکومتی معاملات چلانے میں سرگرم کردار ادا کررہے تھے۔ مطیب کے والد سردار حبیب ضیاء حال ہی میں ہائی کورٹ کے جج تعینات کئے گئے ہیں۔ 

مطیب کی تقرری سے قبل وزیراعظم نیازی نے اپنے سیکریٹریٹ میں اپنے آبائی حلقہ سے تعلق رکھنے والے حبیب احمد، منظر چغتائی اور وجاہت الیاس کی بالترتیب بطور پریس سیکریٹری، پریس اینڈ پبلیکیشن آفیسراور ناظم امور نوجوانان کے صوابدیدی عہدوں پرتقرری کی تھی۔ گو وزیراعظم کے دفتر میں مظفرآباد سے تعلق رکھنے والےمحسن علی اعوان کی بھی ناظم اعلیٰ کے صوابدیدی عہدے پر تقرری ہوئی ہے مگر اس کی وجہ اُن کی نیازی اور مطیب سے الیکشن سے قبل کی ذاتی قربت بتائی جاتی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد ہی نیازی نے اپنے حلقہ اور برادری سے تعلق رکھنے والے ۲۵افراد کی کشمیر لیبریشن سیل کی صوابدیدی اسامیوں پر تقرری کی ایک ہی مکتوب میں منظوری دی تھی جس کے سوشل میڈیا پر شیئر ہونے پر بہت لے دے ہوئی تھی کہ کیا وہ ایک حلقہ کے وزیراعظم ہیں یا سارے آزادکشمیر کے؟

 سوشل میڈیا پر ہونے والے شورشرابے کے جواب میں ان کے دفتر نے تقرریوں کی ایک گول مول سی تردید کی تھی مگرکشمیر سیل کے ذرائع کے مطابق نہ صرف وہ تمام ۲۵ افراد اُسی دوران خاموشی سے تعینات ہوگئے تھے بلکہ بعد ازاں تقریبا مزید دس کو بھی پروانہ تقرری دیا گیا تھا جن میں کم از کم تین کا تعلق وزیراعظم کے حلقہ انتخاب سے ہے جبکہ باقی کا دیگر اضلاع سے۔ یہ افراد جو دفتر میں حاضری کے پابند نہیں ہر ماہ ۲۰ سے ۵۰ ہزار تک بالمقطع اعزازیہ حاصل کرتے ہیں۔

 واضح رہے کہ کشمیر لبریشن کو انیس سو اسی کی دھائی میں سردار سکندر حیات حکومت کے دور میں مسئلہ کشمیر کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ یہ ادارہ اپنے اخراجات "کشمیر سیس" نامی ٹیکس سے پورے کرتا ہے جو سرکاری خزانے سے دی جانے والی تمام تنخواہوں، تعمیراتی ٹھیکوں کی ادائیگیوں اور جائیداد کی خریدوفروخت کی آمدن پر لاگو ہوتا ہے۔ تاہم اس ادارے پر الزام ہے کہ اسے ہر حکومت نے اپنے کارکنان کو نوازنے کیلئے "دفترروزگار"  میں تبدیل کیا ہے۔ 

وزیراعظم کے حلقے سے ایک کے بعد دوسرے شخص کی ایڈجسٹمنٹ پر دلبرداشتہ پی ٹی آئی کارکنان  پولیٹیکل سیکریڑی کی تازہ ترین تقرری پر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے اور اپنا غم و غصہ سوشل میڈیا پر نکالا۔

جبار خان مغل آزادکشمیر میں تحریک انصاف کی طلباء تنظیم آئی ایس ایف کے کنوینر ہیں۔ انہوں نے سماجی رابطے کی معروف سائیٹ ٹویٹر پر ایک پوسٹ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اسد عمر کو ٹیگ کرتے ہوئے وزیراعظم نیازی کو یوں مخاطب کیا:

"رشتہ داروں سے باہر نکل کر بھمبر تا نیلم نظر دوڑائیں بہت قابل اور نظریاتی کارکنان مل جائیں گے جو ان عہدوں کے لئے موزوں ہیں۔ سیاست نہ ہماری روزی روٹی ہے، نہ ہی کمزوری اور نہ ہی عہدوں کی لالچ مگر اس طرح کے اقدامات کارکنان میں مایوسی کا باعث بن رہے ہیں،"

اس سے پہلی ٹویٹ میں جبار کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنان کا استحصال مسلسل جاری ہے جس پر قیادت، حکومتی ممبرز قانون ساز اسمبلی کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔

 ""تابع خوشنودی کی آڑ میں ایک ہی خاندان ایک ہی علاقے کو نوازنا میرٹ نہیں بلکہ تحریک انصاف کے نظریے کی مکمل نفی ہے۔" "

جبار مغل نے یہی دونوں ٹویٹس اکٹھی کرکے اپنے فیس بک اکاونٹ سے بھی پوسٹ کیں جو آزادکشمیر میں ٹویٹر کی نسبت زیادہ مقبول ہے۔ وہاں ان کی پوسٹ کو تین سو سے زیادہ افراد نے پسند کیا اور لگ بھگ ایک سو سے زائد افراد نے تبصرے کرکے ان کے موقف کی تائید کی۔ 

دلچسپ امر یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر متحرک آزادکشمیر کے پونچھ ضلع سے تعلق رکھنے والی  پاکستان پیپلز پارٹی کی جیالی فاطمہ انور سدوزئی نے بھی تحریک انصاف کے کارکنوں کی حمایت میں دو ٹویٹس لکھ ڈالیں۔ 

 سدوزئی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم آزادکشمیر کی جانب سے کی جانے والی حالیہ تعیناتیاں جو کہ صرف اُن کے خاندان سے ہی ہیں پی ٹی آئی کے اُن کارکنوں کے حق میں ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہیں جو کہ سالوں سے پارٹی کے لیے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔سیاسی کارکن ہونے کے ناطے دوسرے سیاسی کارکن کی حق تلفی کی مذمت کرتی ہوں۔

 انہوں نے  یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان" تعیناتیوں سے پی ٹی آئی کے کارکنوں میں بھی غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اُن کو یہ محسوس ہو رہا ہے اُن کا استحصال کیا جارہا ہے۔ کچھ آوازیں بلند ہوئی ہیں لیکن اُن کو بھی خاموش کروایا جارہا ہے۔"

ایسا نہیں کہ صرف کارکنان وزیراعظم پر اپنے اہل خانہ کے ذریعے حکومت چلانے کا الزام لگاتے ہیں۔ کئی حکومتی ارکان اسمبلی کو بھی نجی محفلوں میں ایسا کہتے ہوئے اکثر سنا گیا ہے۔ 

مہاجرین مقیم پاکستان کی نشستوں سے منتخب ایک مشیر حکومت تو بعض اوقات عام تقاریب میں اس بات کا طنزاً ذکر اس دلچسپ اور بےساختہ انداز سے کرتے ہیں کہ محفل کشت زعفران بن جاتی ہے۔

تاہم وزیراعظم نیازی کے پریس سیکریٹری و ترجمان حبیب احمد ان الزامات کہ وزیراعظم نے صوابدیدی اسامیوں کی اکثریت پر اپنے حلقہ سے تعیناتیاں کی ہیں کو مخالفین کا بے بنیاد پروپگینڈہ قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔

اس نامہ نگار کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ کشمیر لبریشن سیل میں مختلف انتخابی حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو لگایا گیا ہے ۔ تاہم اِسی تحریری جواب میں انہوں نے ایک دلچسپ دعویٰ بھی کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم لبریشن سیل کو بھی سیاسی تقرریوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے اس ادارے کی تنظیم نو پر کام ہورہاہے۔ 

"ماضی میں کسی کو اتنی ہمت نہیں ہوئی، مگر وہ پرعزم ہیں۔ انشاءاللہ تنظیم نو کے بعد لبریشن سیل میں کوئی سیاسی تقرریاں نہیں کرسکے گا۔"

تاہم پریس سیکریٹری نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا کہ کیا ایک ہی ہلے میں لگائے گئے ۲۵ افراد بھی سیاسی تقرریوں میں شمار ہوتے ہیں یا نہیں

طارق نقاش   

 

 

 

No comments:

Post a Comment